ریلوےلائن کے ایک طرف انڈیا کی فوج تھی اور دوسری طرف ہم‘ ہمیں حکم ملا کہ فلاں وقت تک دشمن کی پوزیشن پر قبضہ کریں‘ ہمارا توپ خانہ دشمن پر گولے برسا رہا تھا‘ دشمن کی پوزیشن بہت زیادہ مضبوط تھی‘ ہمیں کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی
یہ واقعہ اخبار میں 1970ء سے پہلے گروپ کیپٹن صوفی صاحب نے لکھا تھا یہ چکلالہ بیس میں O.C تھے ۔
انہوں نے لکھا کہ 1965ء کی جنگ پاک فوج کی کمپنی کشمیر کے محاذ پر دشمن کے مقابل تھی۔ ان کے پاس راشن ختم ہوگیا۔ کمانڈر نے اپنی ضرورت سے سینئر کمانڈ کو آگاہ کیا کیونکہ جگہ ایسی تھی کہ وہاں بذریعہ گاڑی سامان پہنچانا مشکل تھا۔ اس لیے فوج نے یہ ذمہ داری ایئرفورس پر ڈالی۔ ایئرہیڈ کوارٹر کے چکلالہ C130جہاد پر لوڈ ہوگیا۔ مشن نہایت خطرناک تھا کیونکہ سامنے دشمن کی فوج بیٹھی تھی۔ ایسے میں ایئرمارشل نورخان مرحوم (جو اس وقت پاک فضائیہ کے سربراہ تھے) نے نہایت جرأت، ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشن پر ساتھ جانے کو تیار ہوئے‘ یہ دیکھ کر ساتھ جانے والا عملہ کے جذبات اور زیادہ بلند ہوگئے۔ جہاز اپنے مشن پر روانہ ہوگیا جب جہاز اپنے ٹارگٹ کے قریب پہنچا تو وہاں یکدم اتنی شدید دھند گرنا شروع ہوگئی کہ جہاز دشمن کی نظروں سے بالکل ہی اوجھل ہوگیا۔جس وقت جہاز سے نیچے سامان گرایا جارہا تھا تو نورخان صاحب مرحوم نے رومال سے انڈیکیشن لائٹ پر ہاتھ رکھ کر بند کیے رکھا۔ پاک فوج کے بہادر سپوتوں نے اطمینان سے اپنا مشن مکمل کیا اور دشمن کے سامنے جہاز اڑاتے ہوئے پرسکون انداز سے واپس ایئربیس پر آگئے۔یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مدد تھی جو اچانک آئی حالانکہ اس سے پہلے وہاں دھند کا کوئی نام و نشان نہیں تھا اور جیسے ہی مشن مکمل ہوا دوبارہ دھند چھٹ گئی۔ اگر دھند نہ پڑتی تو دشمن بڑے آرام سے جہاز پر حملہ کرسکتا تھا اور پاک فوج کا بہت زیادہ نقصان ہوسکتا تھا۔
شہد کی مکھیوں کا پاک فوج کی مدد کیلئے بروقت آنا
یہ 1970ء کی بات ہےہم گاؤں سے چکوال شہر منتقل ہوچکے تھے اور میں گھر چھٹی آیا ہوا تھا گرمیوں کا موسم تھا‘ جمعۃ المبارک کا دن تھا‘ میں جمعہ پڑھنے گیا تو مولوی صاحب 1965ء کی جنگ کا واقعہ بیان فرما رہے تھے۔ فرمانے لگے: ’’ ایک صوبیدار صاحب سے میں نے پوچھا کہ جنگ کا کوئی واقعہ بتائیں تو صوبیدار کہنے لگے (جگہ کاذکر نہیں کیا) ریلوےلائن کے ایک طرف انڈیا کی فوج تھی اور دوسری طرف ہم‘ ہمیں حکم ملا کہ فلاں وقت تک دشمن کی پوزیشن پر قبضہ کریں‘ ہمارا توپ خانہ دشمن پر گولے برسا رہا تھا‘ دشمن کی پوزیشن بہت زیادہ مضبوط تھی‘ ہمیں کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی اور وقت کم سے کم ہوتا جارہا تھا۔ میں صورت حال دیکھ کر رو رو کر اللہ سے دعائیں مانگ رہا تھا‘ مولا! دشمن بہت مضبوط تو ہی ہماری مدد کر اور ہمیں کامیاب فرما۔ میرے آنسو لگاتار گررہے تھے۔ دعا ختم کی‘ دونوں ہاتھ منہ پر پھیرے اور ایک نئے عزم کے ساتھ اٹھا‘ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ہماری توپ کا ایک گولہ دشمن کے میدان میں ایک درخت کے قریب گرا‘ درخت پر بڑی مکھی کے شہد کا چھتا تھا۔ گولہ گرنے سےمکھیاں پورے میدان میں جہاں دشمن پوزیشن لیے ہوئے تھے پھیل گئیں اور دشمن پر ٹوٹ پڑیں۔ جونہی دشمن کے سپاہیوں مورچوں میں ڈسا وہ بلبلا کر مورچوں سے باہر تڑپتے نکل آئے۔ ادھر ہم تیار بیٹھے تھے‘ ہم نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی‘ دشمن کے سپاہی کوئی ادھر ہی واصل جہنم ہوئے‘ کوئی شدید زخمی ہوکر تڑپنے لگے۔ مقابلے کے قابل نہ دیکھتے ہوئے ہم نے فوراً دشمن کی جگہ پر پاکستانی پرچم لہرا دیا۔ یوں اللہ کی مدد سے ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔‘‘ (غلام احمد‘ چکوال)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں